کیچڑ

کیچڑ
سنو تمہیں عروہ کے بارے میں معلوم ہوا؟ کیوں کیا ہوا  طیبہ نے نوٹ بک پر لکھتے لکھتے مصروف انداز میں جواب دیا... تمہیں تو کسی بات کی خبر ہی نہیں ہوتی وہ عروہ ہے نہ اپنی پہلی منگنی توڑ کر کاشف کے پیچھے پڑی ہے. بے چارہ کاشف تنگ آیا ہوا ہے بہت پریشان ہے کہ کیسے اس سے جان چھڑائے.. طیبہ نے اطمینان سے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے کہا چھوڑو کاشف کی یہ پرانی عادت ہے  دوسروں کے بارے میں خصوصاً لڑکیوں کے بارے میں وہ ایسے  ہی خوش فہم رہتا ہے، طیبہ  سابقہ انداز میں بیزاری سے جواب دیا.
یار تم بات تو سنو اگر کاشف اتنی بڑی بات کہہ رہا ہے تو اس کے پیچھے کچھ تو ہوگا نہ، طیبہ نے اطمینان سے نوٹ بک بند کی اور کہا ہاں ہوگا  "کچھ" یقینن  ہوگا اور وہ کچھ ان کاشف صاحب نے بتایا نہیں ہے، نہ وہ بتائیں گے اس لیے جب تک تمہاری عروہ سے بات نہ ہو بہتر ہے  تم کسی اور کے سامنے بھی یہ بات نہیں کرنا نہ ہمیں حقیقت کا علم نہ اور نہ ہی ہم کاشف صاحب کی ازلی عادتوں سے نا واقف ہیں البتہ عروہ کے بارے میں اتنا ضرور جانتے ہیں کہ وہ اپنی موجود نسبت سے دل سے راضی و خوش تھی، پڑھائی اور گھر کے علاوہ کبھی اسے کسی تیسری جانب راغب نہیں دیکھا گیا اس لیے اس طرح باتیں کرنا کسی کے کردار پر چھینٹے اڑانے کے لیے کافی ہوتا ہے،  بہتر ہے ہم چپ رہیں اگر ایسا کچھ ہے بھی تو ہم اس معاملے میں کلام کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.طیبہ نے  دو ٹوک انداز میں اپنی بات مکمل کی اپنی کتابیں سمیٹی اور کلاس سے باہر کی جانب چل پڑی  نمرہ کچھ دیر وہاں بیٹھی رہی پھر سر جھٹک کر کھڑی ہوگئی.
کچھ دن ہی گذرے تھے نمرہ دوپہر میں آرام کرنے کی غرض سے  اپنے کمرے کی جانب جارہی تھی کہ دروازے پر کسی نے اپنی موجودگی کا پتا دیتے ہوئے گھنٹی بجائی. نمرہ نے کچھ جھنجھلاہٹ سے اس طرف دیکھا اور مرکزی دروازے کی جانب چل پڑی. پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عروہ آئی ہے. جلدی سے دروازہ کھولا عروہ اپنے بھائی کے ساتھ آئی تھی کسی کام سے جانا تھا اس لیے ایک گھنٹے بعد واپسی کے لیے آجائے گا یہ کہہ کر چلا گیا چائے پانی جیسی اصولیات و اخلاقیات سے فارغ ہو کر نمرہ نے عروہ سے پوچھا ہاں بھئی کیسے آنا ہوا  کچھ نہیں یار ویسے تو تمہیں پتا ہے کہ ہمارے یہاں شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد گھر سے نہیں نکلنے دیتے. مگر میں نے امی کو کہا تھا اپنی دوستوں کو شادی کارڈ خود ہی دوں گی بس اس لیے آگئی. عروہ نے نارمل و مطمئن و پر سکون  لہجے میں جواب دیا نمرہ نے چونک کر اس کے چہرے کی جانب دیکھا کہیں بھی  ملال زبردستی ناخوشی نارضا مندی کا شائبہ تک نہیں تھا. کیا ہوا عروہ نے اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے کہا ... ہاں کچھ نہیں بہت بہت مبارک ہو  ادھر ادھر کی باتوں کے باوجود نمرہ کے دماغ کی سوئی کاشف والی بات پر اٹکی ہوئی تھی. پھر اس ذہنی الجھن سے نکلنے کے لیے آخر کار پوچھ ہی لیا عروہ تمہاری شادی وہیں ہورہی ہے نہ جہاں تم انگیج تھیں. عروہ بے اختیار ہنسی اور کہا تو اور کہاں ہوگی یا تمہیں لگتا ہے میں منگنی کہیں اور شادی کہیں کروں گی پاگل... عروہ نے شرارتی انداز میں پوچھا نمرہ کو ایک دم شرمندگی نے آ گھیرا اور بے اختیار عروہ سے کہا عروہ سوری یار میں تمہارے بارے میں بد گمان ہوئی کوچنگ کے کاشف نے تمہارے بارے میں طرح طرح کی باتیں بتائیں یہاں تک کہا کہ تم منگنی توڑ کر اس سے کرنا چاہ رہی ہو.... بس اس لیے شرمندگی سے نمرہ سے بات بھی مکمل نہ ہوسکی
عروہ نے ایک گہری سانس لی اور کہا یار دو سال سے ہر جگہ پریشان کرکے رکھا ہوا تھا تم جانتی ہو 6 سال سے چچا کے بیٹے سے نسبت طے ہے میری جب زیادہ ہوا ایک دن اسے کہا ٹھیک ہے گھر رشتہ بھیج دو جو میرے گھر والو کی مرضی بس اتنی سی بات تھی بعد میں وہ کبھی دوبارہ سامنے نہیں آیا نہ پریشان کیا
اب اس نے اس بات کو کیا رنگ دیا یہ سب مجھے نہیں پتا نہ میں سوچنا چاہتی بہرحال تم شادی میں ضرور آنا آخر سہیلیاں ہی شادی کی رونق ہوتی ہیں اور ہاں اس بات کو بھول جاؤ کاشف جیسے لڑکوں کا کام یہ ہی جو ملے اسے بھی بدنام کرو اور جو نہ ملے اسے اور زیادہ کرو، عروہ نے اتنی لاپرواہی  و سکون سے یہ سب بیان کیا کہ اس کے لفظ لفظ سچ ہونے میں کوئی شک نہیں رہا
بات بہت چھوٹی سی اپنا شملہ، جھوٹی شان و شوکت کے لیے، آپ کتنے معتبر کتنے پہنچے ہوئے ہیں آپ کی پہنچ کہاں تک ہے، آپ اپنے گمان  میں ہی دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے  اپنی جھوٹی اہمیت  کا پرچار کرتے ہیں دس لوگو کے درمیان بیٹھ کر کسی عزت دار  لڑکی کے عزت دار دامن پر  انگلیاں اور کیچڑ اچھال دیتے ہیں. اور بھول بھی جاتے ہیں کہ  ان چند جملوں سے کسی کی زندگی، کسی کا خاندان، کسی کا زندگی بھر کا سرمایہ ِ عزت ختم ہوسکتا ہے.  ہر کردار طیبہ کی طرح نہیں ہوتا ہمارے معاشرے کے تیس فیصد کردار نمرہ کی طرح ہیں، 65 فیصد کاشف کی طرح اور پانچ فیصد طیبہ کی طرح  ہر عروہ اتنی خوش نصیب نہیں ہوتی کہ اسے طیبہ جیسے کردار میسر ہوجائیں... اپنی زبانوں اور دلوں کی گندگی کو مٹائیں... یہ گندگی بہت سے ذہنوں کو دلوں اور ان گنت زندگیوں کو تباہ کردیتی ہے
اور نمرہ جیسے کرداروں کے لیے لیے ہے صرف چھوٹی سی بات....
کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ
وہ ہر سنی ہوئی بات کو (تحقیق کیئے بغیر) آگے بیان کردے (الصحیح المسلم)
از قلم   *دُرِّصــدفـ ایــمـان*
23-02-2019

تبصرے

مشہور اشاعتیں