کستوری

*کَستُوری ہِرَن*
جِسے ہندی میں کستوری،
فارسی میں مُشک،
سندھی میں مٙشک،
بنگالی میں مرگ بابھ،
برمی میں کیڈو،
انگریزی میں مسک،
لاطینی میں ماسکس
اور ہماری مہاجری میں نافہ کھُسبو کہتے ہیں،

آج تک آپ کا خیال ہو گا کہ کستوری صرف ہرن سے حاصل ہوتی ہے
لیکن!
آپ کا یہ خیال بلکل غلط ہے۔
اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے
بلکہ!
ان لوگوں کا قصور ہے جو نام نہاد سائنسدان بنے ہوۓ ہیں۔
اور صرف نقل و چِپساں سے کام چلاتے ہیں۔
کچھ تحاریر  میں بھی نقل کرتا ہوں
لیکن!
اس میں  سے ساری غلط معلومات (میرے علم کے مطابق)  نکال دیتا ہوں
اور صحیح معلومات کا اضافہ کر کے آپ تک پہنچاتا ہوں۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ کستوری کس کس جانور سے حاصل ہوتی ہے۔

*1۔کستوری ہرن یا ڈریکولا ہرن*

*2ُ۔ اُود بلاؤ*
یہ پانی میں پایا جانے والا بجو کی نسل کا ایک جانور ہے جوکہ گوشت خور ہے۔
بجو (گور پٹ) بارے میں بتا چُکا ہوں،

*3۔مُشک بلاؤ*
اس سے بھی مشک بلاؤ  سے خوشبو آتی ہے۔

*کستوری دانے*
سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں۔ انہیں  مختلف عرقوں میں ملا کر انتہائی مہنگے عطر تیار کیے جاتے ہیں،
حکمت میں کستوری سے بہت سے نسخے بھی تیار کیے جاتے ہیں،
جو مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔

1 گرام  کستوری کی قیمت 15 ہزار روپے کے قریب ہے۔
ایک ہرن سے 30 سے 40 گرام کستوری حاصل ہوتی ہے۔
جس کی قیمت 4 سے 5 لاکھ ہوتی ہے۔

اگر خالص کستوری کو سونگھا جائے تو ناک سے خون جاری ہو جاتا ہے،

جسا کہ ویکسین کروا لینے سے بیماریاں دور رہتی ہیں۔

کستوری چونکہ بہت قیمتی اور نایاب ہے اس لیے کستوری میں خشک خون یا خشک کی ہوئی کلیجی  کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس میں وزن بڑہانے کے لیے ملا دیے جاتے ہیں۔۔
اس کے علاوہ بھی عوام کو بیوقوف بنانے کے بے شمار حربے استمال ہوتے ہیں،

*نمبر 1 کستوری ہرن*
یہ ہرن نپیال،
بھارت،
پاکستان،
روس،
چین،
افغانستان،
جاپان،
بھوٹان
اور منگولیا میں پایا جاتا ہے
کستوری حاصل کرنے کے لئےعام طور پر  ہرن کو مار دیا جاتا ہے،.
اور غدود جو کہ کستوری تھیلی کہلاتی ہے اسے جلدی سے  ہرن کے جسم سے الگ کر لیا جاتا ہے،
کستوری تھیلی سے سرخی مائل بھورے رنگ کا کریمی مادہ نکلتا ہے جو سوکھ کر کالے دانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے جنہیں کستوری دانے کہا جاتا ہے۔
پھر اسے مختلف عرقوں میں ملا کر بہترین عطر تیار کیے جاتے ہیں ۔
کستوری صرف نر ہرن میں پائی جاتی ہے ۔جوکہ ناف (سُنڈی) کے   ایک غدود میں موجود ہوتی ہے۔
اس سے خوشبو نکلتی رہتی ہے۔
کستوری کی خوشبو  کا اصل مقصد مادہ ہرن  کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔

کستوری ہرن کی 7 نسلیں ہیں۔
جوکہ مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔

ختن، (چین) کا ایک علاقہ ہے،
جہاں کے  کستوری ہرن بہت مشہور ہیں جن کے نافوں سے اعلٰی قسم کا مشک نکلتا ہے۔

کستوری نر ہرن کے دو بڑے دانت ہوتے ہیں جو کہ ڈریکولا کے دانتوں   طرح ہوتے ہیں۔
مادہ میں بڑے دانت نہیں ہوتے۔
اس ہرن کا سائز کُتے جتنا ہوتا ہے۔
اس ہرن کی دُم انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔

پاکستان میں کستوری ہرن وادیِ نیلم،
گلگت,
بلتستان،
ہزارہ،
دیوسائ کے گھنے اور دشوار گزر جنگلات  میں پایا جاتا ہے۔

یہ ایک انتہائی نایاب ہرن ہے۔
مسلسل شکار کی وجہ سے اس کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔
دنیا کہ کئی ممالک سے بلکل ختم ہو چکی ہیں۔اور اکثر ممالک میں ان کی نسل شدید خطرے سے دوچار ہے۔
افغانستان میں اس ہرن کی نسل 1947 سے ناپید  ہو چکی ہے۔
باقی ممالک خاص طور پر پاکستان میں ان کا شکار بیدردی سے جاری ہے۔
مجھے امید ہے کہ اگلے چند سالوں میں یہ نایاب ہرن پاکستان سے ختم ہو جائے گا۔
*اللہ‎ نہ کرے۔*

چین اور جاپان میں کستوری ہرن کے فارم ہیں
یہ لوگ  ہرن کی سرجری کر کے کستوری نکال لیتے ہیں۔
جس سے ہرن کو مارنا نہیں پڑتا اور ایک ہی ہرن سے ہر سال کستوری حاصل کی جاتی ہے۔
لیکن پاکستانی  شکاری اور سمگلر  بہت ہی  لالچی  اور جاہل قسم کے ہیں۔
ایک ہی دفعہ میں ہرن مار دیتے ہیں۔
بیوقوف لوگ ہیں۔

*نمبر 2 اور 3*
اود بلاؤ اور مشک بلاؤ  سے حاصل ہونے والا خوشبودار مادہ جندبیدستر کے نام سے جانا جاتا ہے
جو کہ  کستوری کے طور پر استمال کیا جاتا ہے۔حکمت میں  اسکو "جُند بیدَستر،
عربی اور فارسی میں آش سگ آبی
سندھی میں لدھڑے جاخصیہ،

یونانی زبان میں  " کستور " جبکہ انگریزی میں کیستوریم  کہا جاتا ہے۔۔
اصل میں یہ 👆 دونوں یونانی اور انگریزی الفاظ سنسکریت کے لفظ کستوری سے نکلے ہیں۔۔

اود بلاو سے حاصل ہونے والی کستوری کی پیداوار کے لئے مغربی روس، سائبیریا، کینڈا اور  شمالی امریکہ کے ممالک سرفہرست ہیں۔
اس جانور کو سگِ آبی- اُود بلاؤ کہتے ھیں.
تصویر میں جو تھیلی نما چیز دکھائی دے رہی ہے، دراصل یہی وہ چیز ھے جو طبِ یونانی اور ھومیو پیتھی میں  استعمال ھوتی ھے-
یہ تھیلیاں نر اور مادہ دونوں کی دُم کی نچلی طرف جلد کے اندر  پائی جاتی ھیں،
ایک جانور میں یہ تھیلیاں صرف ایک  جوڑی کی شکل میں ہوتی ہیں۔
تھیلیوں کے اندر ایک گاڑھا سیال خوشبودار مادہ ھوتا ھے،
تھیلیوں کو جسم سے کاٹ کر سکھا لیا جاتا ہے ۔
تازہ غدود  زردی مائل ہوتے ہیں۔
مگر خشک ہو کر سیاہی مائل ہو جاتے ہیں۔

ذائقہ ۔ پھیکا ۔ خوشبودار۔

مزاج ۔ گرم خشک۔

قیمت 15 ہزار روپے کا 1 گرام ۔۔

بعض لوگ جانوروں کا خون خشک کر کے اسے بطور کستوری  فروخت کرتے ہیں۔
جب ہم جیسے معصوم لوگ کشمیر یا مری کی جاتے ہیں تو وہاں کچھ لوگ کستوری سڑکوں پر فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔
ان لوگوں سے بچیں یہ سب دھوکہ کرتے ہیں
اس کے علاوہ مصنوی کستوری بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔
لیکن یہ پاکستان ہے یہاں تو ہر چیز اصلی ہے، (دُکھ کے ساتھ لکھا)
چناچہ مصنوعی کستوری بھی یہاں اصلی کستوری یا تھوڑے سے کم دام پر دستیاب ہے۔

اس کا استمال سینٹ اور عطر  بنانے میں کیا جاتا ہے۔

میرے محترم قارئین!
آپ کی رائے میرے لئے قابلِ احترام ہے،
اور میری پوری کوشش رہے گی کہ میں اپنی گذارشات کو زیادہ سے زیادہ افراد کے لئے قابلِ عمل اور مفید بناؤں۔

اقبال پسوال

تبصرے

مشہور اشاعتیں