زکوٰۃ اور اس کے مسائل


#زکوۃ_اور_اس_کے_مسائل....

دین. اسلام کے دامن میں رہنے والو کے لیے رب تبارک و تعالٰی نے بے حد آسانیاں فرمائی گئ ہیں، عید الاضحٰی پر ہونے والی قربانی کو لے کر بہت سے  لبرل و سیکولر لوگو کو معاشیات یاد آجاتی ہے... پر کبھی زکوۃ جیسی چیرٹی پر ایک لفظ کہنا یاد نہیں رہا،،، جس میں سونا چاندی، زمین، ضرورت سے زائد گھروں پر، دکانوں پر یہ حسن رکھا کہ معاشرے میں موجود اپنے غریب دینی بھائیوں کی مدد کریں حسن. سلوک سے اور واپسی بھی نہ ہو... یہ اسلام. کا حسن... پر نادان کیا جانیں.....

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ.

’’وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘۔

 (الحج، 22 : 41)

توخذ من اغنیاهم فترد علی فقرائهم.

’’زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے اور ان کے غریبوں پر لوٹا دی جائے گی‘‘۔

 (متفق علیہ)

#زکوٰۃ_کسے_دی_جائے

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO

 (التوبہ، 9 : 60)

’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔

فقراءمساکین عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)مؤلفۃ القلوبغلام کی آزادیمقروضفی سبیل اللہ مسافر

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔

مسائل زکوٰۃ

زکوٰۃ ہر مسلمان، عاقل، بالغ، آزاد اور صاحب نصاب شخص پر واجب ہے جب نصاب پورا ہونے کے بعد اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔

سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے۔ سونا چاندی میں چالیسواں حصہ نکال کر بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے یہ ضروری نہیں کہ سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ بازار کے بھاؤ سونے چاندی کی قیمت لگاکر روپیہ زکوٰۃ میں دیں۔ اگر کسی کے پاس تھوڑی چاندی اور تھوڑا سونا ہے اور سونا چاندی میں سے کوئی بھی الگ سے بقدر نصاب نہیں تو ایسی صورت میں دونوں کو ملاکر ان کی مجموعی قیمت نکالی جائے گی اور جس نصاب (سونا یا چاندی) کو بھی وہ پہنچے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ 
 جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دیکر مالک بنادیا ہو تو ان زیورات کی زکوٰۃ عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عور ت کو صرف پہننے کے لئے دیا گیا ہے مالک نہیں بنایا تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں۔ 
 تجارتی مال اور سامان کی قیمت لگائی جائے گی اس سے اگر سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ 
 اگر سونا چاندی نہ ہو، نہ مال تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم سے کم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جاسکتی ہو تو وہ صاحب نصاب ہے اور اس شخص کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوٰۃ، کل چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے۔ 
 اگر شروع سال میں نصاب پورا تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا۔ درمیان سال میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس شخص کو پورے مال کی زکوٰۃ دینا پڑے گی۔ 
 روپے پیسوں کی زکوٰۃ میں روپے پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰۃ کے نکلتے ہیں اگر ان کا غلہ، کپڑا، کتابیں یا کوئی بھی سامان خرید کر مستحق زکوۃ کو دے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ 
 کرایہ پر اٹھانے کے لئے ویگنیں، موٹریں، بسیں، ٹرک اسی طرح دیگیں، دریاں، گدے، کرسیاں، میزیں، پلنگ، مسہریاں یا کرایہ پر اٹھانے کے لئے مکانات اور دکانوں سے حاصل شدہ آمدنی اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ 
 میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ یونہی کوئی شخص اپنے والدین، اوپر تک اور اپنی اولاد کو نیچے تک زکوٰۃ، عشر، فطرانہ اور فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس وغیرہ نہیں دے سکتا۔ ان کے علاوہ غریب رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی اوران کی اولاد، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ اور ان کی اولاد اگر غریب ومستحق ہوں تو ان کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ، فدیہ وغیرہ دینا دوگنا ثواب ہے۔ اوّل فرض ادا کرنے کا دوم صلہ رحمی اور رشتہ داری کا لحاظ کرنے کاجب یہ تسلی ہوجائے کہ یہ شخص غریب ومستحق ہے اس کو بقدر ضرورت دیدیں۔ دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ وعشر وغیرہ ہے بلکہ نہ بنانا بہتر ہے تاکہ اس کی عزت ونفس مجروح نہ ہو۔ 
 زکوٰۃ و صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے اقرباء کو دے پھر ان کی اولاد، پھر دوسرے رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے گاؤں اور شہر کے رہنے والوں کو۔ (عالمگیری وغیرہ)

اپنی زکوۃ پہلے اپنے قرابت داروں، محلے، اور قریب کے لوگو میں تقسیم کریں... رب العالمین ہم سب کو حب مال سے عافیت میں رکھے اور شریعت کی پاسداری کرنے والا نیک مسلمان بنائے، حق دار کو اس کا حق دینے کی تو فیس مرحمت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین...

از مرتب. #دُرِّ_صــدفـــ_ایــمــان

تبصرے

مشہور اشاعتیں