پردہ


پردہ

کچھ دن قبل بھائی کی منگنی کے سلسلے میں بھائی کے سسرال جانا ہوا راستے  میں نقاب و حجاب والی لڑکیاں دیکھیں..... چہرہ پر نقاب تھا، آنکھوں سے زائد چہرہ ظاہر، تنگ و چست عبائے  کے ساتھ ساتھ ستارہ سلمی سے بھرپور... اور جس چہرے کو اس عبائے کے چھوٹے سے اسکارف کے ساتھ چھپانے کی کوشش کی گئ تھی اس نام. کے حجاب میں وہ حکم  بڑی دیدہ دلیری و مطمئن انداز میں نظر انداز کیا جارہا تھا جس کا حکم. قرآن و احادیث میں واضح طور پر فرمایا گیا.... کہ ارشاد باری تعالی ہے

لَا یُبۡدِیۡنَ  زِیۡنَتَہُنَّ  اِلَّا مَا ظَہَرَ  مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُن

اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جتنی خود ہو اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں...

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں بیان ہوتا ہے کہ
عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچاؤ چاہئے ، بدکاری سے دور رہیں ، اپنا آپ کسی کو نا دکھائیں ۔ اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں ہاں جس کاچھپانا ممکن ہی نہ ہو ، اس کی اور بات ہے جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جنکا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لئے ناممکنات سے ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ ، پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے ۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں ، جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کردی ہے ۔

جب کہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں یعنی بالیاں ہار پاؤں کا زیور وغیرہ ۔
فرماتے ہیں زینت دو طرح کی ہے
ایک تو وہ جسے خاوند ہی دیکھے جیسے انگوٹھی اور کنگن
دوسری زینت وہ جسے غیر بھی دیکھیں جیسے اوپر کا کپڑا ۔
حضرت زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ان کے سامنے تو کنگن دوپٹہ بالیاں کھل جائیں تو حرج نہیں لیکن اور لوگوں کے سامنے صرف انگوٹھیاں ظاہر ہوجائیں تو پکڑ نہیں ۔ اور روایت میں انگوٹھیوں کے ساتھ ہی پیر کے خلخال کا بھی ذکر ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ ما ظہر منہا کی تفیسر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منہ اور پہنچوں سے کی ہو ۔
جیسے کہ ابو داؤد میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کپڑے باریک پہنے ہوئے تھیں تو آپ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو سوا اس کے اور اس کے یعنی چہرہ کے اور پہنچوں کے اس کا کوئی عضو دکھانا ٹھیک نہیں ۔ لیکن یہ مرسل ہے ۔
خالد بن دریک رحمۃاللہ علیہ اسے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا ام المومنین سے ملاقات کرنا ثابت نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ عورتوں کو چاہئے کہ اپنے دوپٹوں سے یا اور کپڑے سے بکل مار لیں تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے ۔
جاہلیت میں اس کا بھی رواج نہ تھا ۔ عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتیں تھیں بسا اوقات گردن اور بال چوٹی بالیاں وغیرہ صاف نظر آتی تھیں ۔ #_ایک_اور_آیت_میں_ہے اے_نبی_صلی_اللہ_ علیہ_وسلم_اپنی_ بیویوں_ سے_اپنی_بیٹیوں_ سے_ اور_ مسلمان_ عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور_ ستائی_ نہ_ جائیں ۔
خمر خمار کی جمع ہے خمار کہتے ہیں ہر اس چیز کو جو ڈھانپ لے ۔ چونکہ دوپٹہ سر کو ڈھانپ لیتا ہے اس لئے اسے بھی خمار کہتے ہیں ۔ پس عورتوں کو چاہے کہ اپنی اوڑھنی سے یا کسی اور کپڑے سے اپنا گلا اور سینہ بھی چھپائے رکھیں ۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے شروع شروع ہجرت کی تھی کہ جب یہ آیت اتری انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے ۔ بعض نے اپنے تہمد کے کنارے کاٹ کر ان سے سر ڈھک لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس عورتوں نے قریش عورتوں کی فضیلت بیان کرنی شروع کی تو آپ نے فرمایا ان کی فضیلت کی قائل میں بھی ہوں لیکن واللہ میں نے انصار کی عورتوں سے افضل عورتیں نہیں دیکھیں ، ان کے دلوں میں جو کتاب اللہ کی تصدیق اور اس پر کامل ایمان ہے ، وہ بیشک قابل قدر ہے

امام ابن ابی حاتم سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں قول نقل کرتے ہیں
کہ وہ بڑی چادریں نہ اتاریں( کہ ان کی زینت ظاہر ہو)
اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا ، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے ، بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر ، کمر ، سینہ ، سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں ۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں ، بیٹیوں ، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں ۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت : ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو ۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا ۔ یہ بات کہ دوپٹہ باریک کپڑے کا نہ ہونا چاہیے ، ان احکام کے مزاج اور مقصد پر غور کرنے سے خود ہی آدمی کی سمجھ میں آ جاتی ہے ، چنانچہ انصار کی خواتین نے حکم سنتے ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کا منشا کس طرح کے کپڑے کا دوپٹہ بنانے سے پورا ہو سکتا ہے ۔ لیکن صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی صرف لوگوں کے فہم پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اس کی تصریح فرما دی ۔ دِحْیَہ کَلْبی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ ( قَبَاطِی ) آئی ۔ آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا ایک حصہ پھاڑ کر اپنا کرتہ بنا لو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لیے دے دو ، مگر ان سے کہہ دینا کہ تجعل تحتہ ثوباً لا یصفھا ، اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے ۔ ( ابو داؤد ، کتاب اللباس ) ۔
حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں ۔ حضور نے فورا منہ پھیر لیا اور فرمایا یا اسماء ان المرأۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا انیری منھا الا ھذا و ھذا و اسار الی وجھہ وکفیہ ، اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے ۔ ( ابوداؤد )

اسی قسم کا ایک اور واقعہ ابن جریر نےحضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے ہاں اکے اخیافی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہوئی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا ۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میری بھتیجی ہے ۔ آپ نے فرمایا اذا عرکت المرأۃ لم یحل لھا ان تظھر الا وجھھا و الا مادون ھذا و قبض علی ذراع نفسہ وترک بین قبضتہ و بین الکف مثل قبضۃ اخری ، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا ، اور ہاتھ کی حد آپ نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی ۔

تفسیر کشاف میں ہے کہ
زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی ۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا ۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی ۔ اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں ( تفسیر کشاف جلد 2 ، صفحہ 90 ۔ ابن کثیر جلد 3 ، صفحہ 283 ۔ 284 ) ۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دو پٹہ رائج کیا گیا ، جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے ، بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر ، کمر ، سینہ ، سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں ۔(سورہ النور حاشیہ نمبر 36)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں ، بیٹیوں ، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں ۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت : ولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو ۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا ۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں حاضر ہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں ۔ اسی سلسلے کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے ( ابن کثیر ، ج 3 ، ص 284 ۔ ابو داؤد ، کتاب اللباس ) ۔
عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آئے ۔ ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا کے فقرے میں جو حکم دیا گیا تھا اس کا مطلب یہاں کھول دیا گیا ہے کہ اس محدود حلقے سے باہر جو لوگ بھی ہوں ، ان کے سامنے ایک عورت کو اپنی آرائش قصداً یا بے پروائی کے ساتھ خود نہ ظاہر کرنی چاہیے ، البتہ جو ان کی کوشش کے باوجود یا ان کے ارادے کے بغیر ظاہر ہو جائے ، یا جس کا چھپانا ممکن نہ ہو وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔

فقہاء لکھتے ہیں

آزاد عورت  کا ستر سوائے، چہرے دونوں ہاتھ(ہتھیلیاں) اور پاؤں کے سوا سب عورت یعنی چھپانے کے لیے ہے
#حجاب( چہرے کا پردہ )

اگر چہ ستر عورت میں چہرہ چھپانے کو شامل نہیں کیا گیا... مگر دور حاضر میں جس قدر فتنہ ہے اس کے پیش نظر یہی بہتر حکم ہے کہ جس قدر ہوسکے اس قدر چھپایا جائے اپنے آپ کو...

سورة الاحزاب کی آیت نمبر ۵۹ میں مذکور ہے :
”اے نبی اپنی بیویوں بیٹیوں اورمسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اورانہیں ستایا نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“

سورة الاحزاب کی آیت۳۳ میں فرمایا گیا دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو“۔ یہاں لفظ ” تبرج “ آیا ہے جس کا مطلب ہے نمایا ں ہونا ا بھرکراور کھل کر سامنے آنا ظاہر ہونا۔ عورت کے لئے تبرج کا مطلب ہے اپنے حسن کی نمائش کرنا لباس اور زیور کی خوبصورتی کا اظہار کرنا اور چال ڈھال سے اپنے آپ کو نمایا ں کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ عورتیں جب باہر نکلیں تو اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے نمایاں کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ احتیاط کے ساتھ چادر میں مستور ہوکر نکلیں۔

حضرت عائشہ حجة الوداع کے موقع پر سفر کے بارے میں فر ماتی ہیں کہ” قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم رسول اللہ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھیں۔ جب قافلے ہمارے سامنے آتے ہم بڑی چادر سر کی طرف سے چہرے پر لٹکا لیتیں اور جب و ہ گزر جاتے ہم اس کو اٹھا دیتیں “۔ (ابوداود )

خلاصہ کلام یہ ہے کہ

جسم کو چھپانے کا حکم ہے... مگر جتنا زیادہ چھپایا اتنا بہتر ہے.. نہ کہ پردے کے نام پر بے پردگی جیسا کہ... تنگ عبایہ، اسٹائلش چھوٹے چھوٹے اسکارف، یہ بھی دیکھا گیا عبایہ پہن کر اس آستینیں فولڈ کردی جاتی ہیں، ایسے اسکارف جو صرف سر کو کور کرتے ہیں، مگر بال کمر، گردن. سب عیاں ہوتے ہیں... یہ سب بے پردگی ہے اگر نقاب نہیں بھی کر رہے کم از کم جسم کو تو ٹھیک سے جو حق ہے اس کے مطابق چھپایا جائے... ورنہ دوسرے لفظوں میں جانوروں اور ہم میں کوئی فرق نہیں....

از قلم. دُرِّ صــــدف ایـــمــــان

تبصرے

مشہور اشاعتیں