محبت نفس اور تقسیم
محبت، نفس اور تقسیم
تحریر: دُرِّ صدف ایمان
ایک بات آپ جان لیں میں آپ کو کبھی بھی بانٹ نہیں سکتی، اس لیے ایسا دن جب بھی آئے کہ آپ کو لگے کہ اب آپ میری محبت تقسیم کر رہے ہیں، مجھے طلاق دے دینا.... میں زندگی سے الگ ہونا برداشت کرسکتی ہوں، مگر زندگی تقسیم کرنا نہیں،...... یہ کہتے کہتے ابیہا کا لہجہ بھرا گیا....
کامران کے چہرے پر ابیہا کی یہ شدت و جنون دیکھ کر مسکراہٹ آگئی.. ارے بیہ! میری زندگی تم ہو.... . اور اپنی زندگی کو بھی کوئی کیا الگ کرسکتا ہے، اور ہاں میری محبت پر، میری زندگی پرصرف تمہارا حق ہے صرف تمہارا۔
ابیہا کے چہرے پر سکون پھیلنے لگا.... تھینکس، آپ بہت اچھے ہیں... احساسِ ممنونیت سے ابیہا نے کہا...
اچھا کتنا اچھا ہوں؟ اتنا کہ مجھ سے ابھی طلاق کا کہا گیا؟؟
ابیہا نے چونک کر کامران کے چہرے کی طرف دیکھا..... اتنی سنجیدگی وہ گبھراگئی... نہیں وہ تو... وہ تو بس میں... میں نے تو بس بتارہی تھی کہ کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں....
کامران کا قہقہہ کمرے میں گونجا... روٹھنے، منانے کاسلسلہ جاری ہوگیا تھا...
اور زندگی مسکرا رہی تھی... ابیہا اور کامران دونوں کزن تھے، بچپن میں ساتھ کھیلا کرتے تھے،بڑے ہونے پر پسندیدگی ہوگئی... جو بعد میں محبت بن گئی، گھر والوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ابیہا بھی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی تھی، اسی طرح کامران بھی پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ اپنا کاروبار کرتا تھا.... لہٰذا جب گھر کے بڑوں کے سامنے بات آئی تو سب ہی خوشی خوشی انھیں رشتۂ ازدواج میں باندھنے پر تیار ہوگئے.... اور دسمبر کی ایک خوبصورت شام دونوں نکاح جیسے خوبصورت رشتے میں بندھ کر... اپنے آپ کو خوش نصیب ترین سمجھنے لگے.... اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا... دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے تھے، عادتوں سے پسند ناپسند سے واقف تھے۔ ان دونوں کے رشتے میں وہ سب کچھ تھاجو کسی بھی رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے موجود ہونا چاہیے۔ دونوں نہ صرف محبت کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کی خواہش و جذبات کا احترام بھی کرتے تھے۔
ابیہا کچھ جذباتی تھی لیکن کامران کو اس بات پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا... وہ ابیہا کی شدت پسندی سے بھی واقف تھا... اور اس بات پر خوشی محسوس کرتا تھا...کہ ابیہا کی محبت اس کے لیے اتنی ہے.... سچ یہ تھا کہ دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں تھی.......
ابیہا ابیہا کہاں ہو۔
آپ آگئے آج جلدی خیریت ہے؟ ہاں خیریت ہے، بس آج صبح آفس جاتے ہوئے ایک لڑکی مل گئی تھی.... بہت پرکشش تھی تمہارے جتنی خوبصورت تو نہیں، پر کچھ تو کشش تھی اس میں.....
کون تھی... پہلے کتنی بار ملی اور کس جگہ مل گئی اور ایسا کیا تھا جو اب تک وہ یاد ہے....
ابیہا کے لہجے میں شدید غصہ، تجسس، جھنجھلاہٹ اور شک تھا۔
بس یار کیا بتاؤں، لگتا ہے مجھے اس سے محبت ہوگئی۔
اب کہاں ڈھونڈوں اسے بھی آہ.... کامران نے آنکھیں بند کیے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی.... جب کوئی آواز نہیں آئی تو آنکھیں کھول کر دیکھا.....
ابیہا کیا.... کیا ہوا... سُن بیٹھی ابیہا کے چہرے کا رنگ اس قدر پیلا پڑگیا تھا کہ وہ گھبرا گیا.. ارے میں صرف مذاق کر رہا تھا... جلدی سے پانی کی بوتل لینے گیا، واپس آیا تو چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ابیہا زور زور سے روتی ملی....
میں سچ کہہ رہا ہو ں صرف مذاق تھا۔ تم خود بتاؤ، کیا میری زندگی میں تمہارے علاوہ کوئی آسکتا ہے... اس کے رونے میں کوئی کمی نہیں آئی تو کامران نے ہاتھ جوڑ دیے۔ اچھا معاف کردو، آئندہ پرامس ایسا کچھ نہیں کہوں گا،،...
بیہ میری جان میری زندگی۔ اسے سینے سے لگاتے ہوئے تسلی دی... بس چپ ہوجاؤ اب...
آپ وعدہ کریں کوئی لڑکی آپ کی زندگی میں نہیں آئے گی، میرے جیتے جی آپ کبھی شادی نہیں کریں گے دوسری... تم پاگل ہوگئی ہو ایک چھوٹے سے مذاق کو اتنا سیریس لے لیا...
آپ وعدہ کریں بس... اچھا ٹھیک ہے وعدہ... اب تو چپ ہو جاؤ یا سمندر بنانے کا ارادہ ہے.......
ٹھیک ہے..... پر آئندہ ایسا مذاق نہیں کرنا میری جان نکل گئی تھی...
ہاں بابا نہیں کرتا، ڈرا ہی دیا تھا مجھے...
اب چائے پلادو گی؟؟؟ جی میں چائے لاتی ہوں....
افف فف یہ بیہ بھی نہ پاگل ہے بالکل.....
دن مہینے سال گذرتے گئے شادی کو پانچ سال ہوگئے.... آنگن میں اب تک کوئی پھول نہیں کھلا.... پہلے سوال دبے دبے تھے... اب کھلے الفاظ کے ساتھ پوچھا جاتا.... مشورے دیے جاتے... لیکن سب ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹرز نے یہی کہا ... رب کی رضا میں راضی رہیں، وہ جب چاہے
ہ کہنے لگی ہیں اپنی محبت تقسیم کردے، کامران کو دوسری شادی کے لیے تیار کرے... کیونکہ کامران سے جب انھوں نے بات کی تو کامران نے دو ٹوک الفاظ میں منع کردیا دوسری شادی کا.....
ابیہا کی زندگی میں جتنا سکون تھا،،، وہ ماں نہ بننے کے جرم میں تباہ ہوکر رہ گیا تھا..... کامران اس کے ساتھ خوش تھا، اسے بھی خوش رہنے کی تلقین کرتا..... اور وہ کامران کی خوشی کی خاطر خوش رہنے کی کوشش بھی کرتی...
بیہ آج تیار رہنا شاپنگ پر جائیں گے.... کامران آفس جاتے ہوئے کہہ کر گیا تھا۔ ابیہہا کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا پھر بھی تیار ہوگئی... کامران نے ڈھیروں شاپنگ کی اس کے لیے... لیکن اس کی نگاہیں بار بار بے بی گارمنٹس پر چلی جاتیں۔ وہ دل کی خواہش نظر انداز کر کے شاپنگ میں خود ساختہ دلچسپی ظاہر کرتی رہی.... شاید آج کے دن سے ابیہہا کی زندگی کا امتحان شروع ہوا یا پھر شاید کامران کی آزمائش.....
مال سے باہر نکلے، کامران گاڑی ریورس کر کے ابیہہا کی طرف لارہا تھا کہ ایک گاڑی آئی اور ابیہہا کو ٹکر مارتی چلی گئی... ابیہا.... کامران کا ذہن ماؤف ہوگیا ہے.. ہوش وحواس سے بے گانہ ابیہا سڑک پر پڑی تھی۔ ارد گرد لوگ جمع تھے...... لیکن کامران کو لگا کچھ نہیں باقی رہا زندگی میں....
آئی سی یو کے باہر اِدھر سے اُدھر چکر لگاتے ہوئے بس ایک دعا تھی: یا اللہ میری ابیہا کو زندگی دے دے... میری ابہیا کو زندگی عطا فرمادے... جو مانگا ملا... زندگی مانگی اور رب نے زندگی دے دی.... یہ صحت و زندگی مانگتا تو شاید یہ سننے کو نہ ملتا کہ جان بچ گئی .... لیکن وہ اب خود سے اپنا کوئی کام نہیں کرسکتی تھی۔ انٹرنل اینجیوری کے ساتھ ساتھ ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچا تھا.....
ابیہا کو ہاسپٹل سے گھر شفٹ کردیا گیا تھا۔ وہ شدید چڑ چڑی ہوگئی تھی۔ کامران نے اس کے آرام و خیال میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ دو نرسیں رکھ لی تھی جو ابہیا کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی.... کامران کی زندگی اور مصروف ہوگئی پہلے صرف آفس کا کام ہوتا تھا، اب ابیہا کی ذمہ داری بھی تھی... اس کے علاوہ ذہنی اذیت.... ماں بہنوں کا ایک ہی مشورہ تھا شادی کرلو.....
اور کامران کا ایک جواب..... نہیں...
لیکن یہاں ابیہا نے بھی خودغرض کی انتہا کردی... وہ دوسری شادی پر نہ راضی تھی اور نہ ہی ایسا چاہتی تھی بلکہ پہلے جو وعدہ وہ مہینوں میں لیتی تھی اب دن میں کئی بار یقین دہانی لیتی... کہ کامران دوسری شادی نہ کرے گا نہ... اور کامران کا جواب: نہیں بیہ اسے پرسکون کردیتا......
دن گذرتے رہے... کامران کو بشری تقاضے ستانے لگے.. وہ توبہ کرتا.. نمازوں میں دعا مانگتا، روزے رکھتا... ابیہا کی محبت لاکھ اس کے دل میں تھی لیکن جسم کا کیا کرے....
دو سال گذر گئے ابیہا وہیل چئیر کی عادی ہوگئی... اور کامران کی طرف سے مطمئن بھی....
کامران اب چپ چپ رہنے لگا تھا... سر نرس کی آواز تھی میم کی ٹیبلیٹس آئیں گی... کامران کو اس کے انداز میں نہ جانے کیوں دعوت نظر آئی۔ فطرتاً نیک تھا اللہ سے پناہ و عافیت مانگی اور کہہ دیا کہ شام میں آجائیں گی...
دن پر دن گذر رہے تھے۔
نرس کی دعوت کا انداز بے باکانہ ہوتا جارہا تھا.... پھر اس کا حل یہ نکالا کہ اسے فارغ کر کے دوسری نرس رکھ لی۔ اب کی بار بڑی عمر کی خاتون کو رکھا... مطمئن ہوگیا.....
آفس گیا تو معلوم ہوا کہ جس سیٹ کے لیے فی میل کی ضرورت تھی وہاں ایک ضرورت مند آگئی ہے.... چند ہی دنوں میں اپنے کام سے اس نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے کام سے مخلص ہے... کامران سے اس کا زیادہ واسطہ نہیں پڑتا تھا.... ایک دن آفس وین خراب تھی.... کامران سمیرا کی عزت کرتا تھا کیونکہ آفس میں اس کی ریپوٹیشن اچھی تھی محنتی تھی، شوہر نے طلاق دے دی تھی اس لیے ہمدردی بھی تھی... جب باہر نکلا تو وہ بھی شاید بس کے انتظار میں تھی... نہ جانے کیا سوچ کر لفٹ دے دی.... سمیرا نے بھی جھجکتے ہوئے قبول کرلی.... ایک بار اتفاق ہوا.... پھر بار بار ہونے لگا.... ایسے ہی جب ایک دن ڈراپ کیا تو سمیرا نے بہت لگاوٹ سے کہا: سر چائے پی کر چلے جائیے گا.... اس نے اس انداز میں کہا کہ کامران نہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر سکا....
ڈرائنگ روم میں بٹھا کر سمیرا اندر چلی گئی، جب کچھ دیر میں آئی تو وہ سمیرا جو اسکارف لپیٹے ہوتے تھی اس وقت بہت ایزی انداز میں دوپٹہ ایک طرف ڈالے ہوئے تھی... کامران کو عجیب سا احساس ہوا... اسی احساس کو زائل کرنے کے لیے پوچھا.... کوئی اور نہیں رہتا یہاں؟
میری والدہ رہتی ہیں ساتھ... آج وہ بڑی بہن کے گئی ہیں رات تک آجائیں گی...
میں چائے لاتی ہوں....
کچھ ہی دیر میں سمیرا چائے لے آئی... دیتے وقت ایسے انداز میں جھکی کہ کامران کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ کس چیز کی دعوت ہے،،، دعوتِ گناہ.... دعوتِ لذت، پرکشش جوان لڑکی، تین سال سے نفس پر قابو.... .
پسینے چھوٹنے لگے... بمشکل چائے ختم کی... سمیرا کی طرف دیکھا تو وہ عجیب انداز میں مسکرائی، جیسے اس کی حالت سے حظ اُٹھارہی ہو..... پھر اُٹھی اور دوپٹہ اُتار کر صوفے پر ڈال دیا۔ اس کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہوئی کمرے کی طرف چلی گئی....
کامران سب سمجھ گیا تھا.... آزمائش تھی،،، شش و پنج کا اذیت ناک وقت تھا۔
ایک طرف دنیا کا سکون... اذیت سے چھٹکارا
دوسری طرف ابیہا سے محبت، وفاداری اعتبار، رب کی نافرمانی....
نفس و تقویٰ کی جنگ جاری تھی.... شدید جنگ.... دلائل، تاویلات، لیکن پھر نفس جیت گیا، کمرے کی طرف بڑھتے قدم دیکھ کر....
شیطان نے تالیاں بجائی... مسکرایا.... اور ابیہا کی نادان محبت پر خوشی کا گیت گاتا چلاگیا.....
ابیہا کی محبت نے کامران کو گناہ کی راہ دے کر جہنم کا راستہ دکھادیا تھا.......
کاش وہ قرآنی و شرعی احکام مان لیتی... اس کی حکمت جان لیتی تو آج یہ چوری نہ کرنی پڑتی کامران کو....
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں