مسجد اقصی اور ہم
مجھے بڑے ماموں کے گھر کسی کام سے جانا تھا، ماموں کی بڑی بیٹی کی جب سے شادی ہوئی ملاقات بہت کم ہونے لگی، اسے ہمارے ماموں کے گھر جانے کے ارادے کا معلوم ہوا تو کال کرکے خصوصی کہا بدھ کو آجانا تاکہ ملاقات ہوسکے، کیونکہ اس کا بھی میکے جانے کا پروگرام ہے، ہم نے بھی زور و شور سے حامی بھرلی ، تیسرے نمبر والے بھائی کو لے جانے کہا، وہاں سے مطلقاً نفی میں جواب آیا، عذر ِ بے بنیاد یہ پیش کیا گیا بدھ کو ویلنٹائن ڈے ہے میں ہرگز باہر نہیں لے کر جاؤں گا، (لوگ غلط سمجھتے ہیں) بہرحال مناتی رہی، نہیں مانے چھوٹے صاحب،
پھر اتفاق سے آج ایک دوسرے کام سے ہی باہر جانا ہوا، اور الحمد للہ رب العالمین، جیسا چرچا ویلنٹائن ڈے کا سوشل میڈیا پر ہے ایسا باہر کچھ نظر نہیں آیا نہ پھولوں کی دکان پر رش، نہ ہارٹ شیپ بیلون، نہ ہی اس طرح کے دیگر لوازمات، نہ سڑکوں پر بے ہودگی، نہ کپلز کی بائکس کا اذدھام،
اب اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں ، یا تو معاشرہ ویلنٹائن جیسی خرافات سے پاک ہوگیا سوائے کچھ جگہ کہ، یا پھر بے حیائی اس قدر بڑھ گئ جو اسپیشل ڈیٹ، اس تاریخ پر ہونی ہوتی ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے لگی،
لیکن امید افزا بات یہ ہے ویلنٹائن ڈے ہمارا معاشرہ بھول رہا ہے ، تو آئندہ سال کے لیے نیت کرلیں، حیا ڈے، حیا ڈے کا چرچا نہیں کرنا، پردہ و حیا ہر دن کے لیے ہے، اور اس حیا ڈے کو منانے میں ویلنٹائن ڈے خود بخود پروموٹ ہوجاتا ہے....
از در صدف ایمان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں