بے بس قلم
بے بس قلم
میں اب نہیں لکھنا چاہتی،، نہیں چاہتی لکھنا دوسروں کا وہ درد جو جس مفاد پرستوں کے لیے لکھتی ہوں ان تک نہیں پہنچتا پر، جن کی کلیاں، جن کے گھر کی چہکار، معصوم گونج مسلی جاتی ہیں، وہ پڑھیں تو درد آنکھوں سے رواں ہوجاتا ہے، دل آزاری میرے مذہب میں حرام ہے،مگر وہ مردہ ضمیر بے حس لوگ کلیجہ نکال کر لے جاتے ہیں ماؤں کا، باپ کے باذؤں کی ہمت چھین کر گٹروں میں قبرستان میں، ندی میں، نالوں میں پھینک دیتے ہیں،... اقتدار پرستو، ایک ماہ. پانچویں مردہ کمسن جان ملی ہے، شرم و احساس ہے تو ان والدین کا درد محسوس کرو
اپنی کرسی، اپنا سکون بچانے کے لیے رعایا کو کیسے بھول سکتے ہو، ایسے وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان پر لے آئے، جہاں لمحہ لمحہ، کبھی ایمان پر اور کبھی عزت پر حملہ ہورہا ہے،
کس کس کو پھانسی دو گے؟ ایسی نوبت کیوں آئی؟ وجہ پتا ہے کیا خود کی بیٹی بنا گارڈ کے نکلتی نہیں، عام آدمی کا بچہ گلی میں کھیل نہیں سکتا، گھر کے کرائے کے آنگن میں جگہ نہیں، خود کا بچہ سرکاری اسکول میں پڑھتا نہیں، نہ کسی کے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر پھینکنے کا خوف نہ ہی خدشہ، پہلو میں سفید ریش بوڑھے بے بس باپ کو بٹھا کر مسکرانے والو... تم دوسروں کی اولاد کا درد جان ہی نہیں سکتے، تمہاری بیٹیاں گھروں سے خود بھاگتی ہیں، تمہارے بیٹے شراب کے شباب کے نشے میں چور ہوتے ہیں، تمہاری آنکھوں کے سامنے، عزت تو پہلے ہی نہیں رکھتے، رہ گیا اسلام وہ تم نے اقتدار پر قائم رہنے کے لیے ویسے فارم و دستاویزات تک محدود کردیا،
بس کردو اپنے چند دن کے آرام کے لیے ننھی کلیوں، بے گناہ بچوں کی سانسیں بند کروانا بند کردو.... پھانسی اس کا حل نہیں رجم اس کا حل ہے، اور ایک حکم پر شریعت نہیں ہر ہر حکم شریعت کے مطابق کرو
تب تو شاید اس تباہی کی طرف جاتی راہ کو روک سکو ورنہ...... جو ترقی پذیر ملک تم تقریروں میں بیان کرتے ہو، وہاں لوگ اپنی بیٹیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنا بند کردیں گے، یا پھر عرب کا گمراہی کا دور پاکستان میں لوٹ آئے گا جب بیٹیوں کو زندہ دفنایا جاتا تھا، اب زندہ درگور کرنے سے بہتر، اپنے ہاتھوں سے سانسیں بند کرنا بہتر لگے گا
از دُرِّصــدف ایـــمــــان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں