مسئلہ آب اور عوام کو پیش مسائل
مسئلہ ِ آب اور عوام کو پیش مسائل
عالمگیر حقیقت ہے پانی ایک بیش بہا نعمت ہے، پانی زندگی ہے ـ اور اس سے بھی تلخ حقیقت ہے کہ وہی زندگی انسانوں پر آج مشکل کردی گئی ہےـ افسوس کے ساتھ جن حکمرانوں پر ہم نے بھروسہ کرکے اپنے سر پر مسلط کیا تھا ـ وہی حکمران آج عوام الناس کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسارہے ہیں. بلاشبہ پانی کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی ـ مگر فی الوقت پانی کی قلت قومی مسئلہ بن گیا ہےـ پندرہ سے بیس، بیس، دن اور کہیں کہیں پورے پورے ماہ پانی نہ آنا اور کسی کسی جگہ مستقل طور پر پانی کی عدم دستیابی کا سامنا ہے ـ لوگو زمینی پانی جسے عرف عام میں کھارا پانی کہا جاتا ہے اس کے استعمال پر مجبور ہیںـ دس پندرہ ہزار کمانے والے تنخواہ داروں کی تنخواہوں کا بڑا حصہ پانی خریدنے پر خرچ ہورہا ہے ـ یہ سب عوام کے لیے پریشانی کا باعث نہیں تو کیا ہے؟اور باوجود اس کے پینے کے لیے جو پانی میسر ہورہا ہے وہ بھی صاف نہیں عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے ـ پاکستان میڈیکل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں %90 بیماریوں کی وجہ پینے کا آلودہ پانی ہے ـ جس کے باعث سالانہ تقریباً گیارہ لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ـ
پاکستان رب تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا پانچ دریاؤں اور ایک سمندر کی حامل سرزمین ہےـ مگر افسوس کے ساتھ پھر بھی ان ممالک میں شامل ہے جن کے لیے اندیشہ ہے کہ مستقبل قریب میں پانی کے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہمارے ملک میں پانی کے بحران کی ایک وجہ تو حکومتی ناقص پالیسیاں ہیں ـ جبکہ دوسری وجہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ہے جو شروع دن سے ہی اس پاک سرزمین کو تباہ ہوتے دیکھنے کا خواہش مند ہےـ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ماہرین اپنا تجزیہ و اندازہ تیسری جنگ کے بارے میں یہ بیان کر رہے ہیں وہ پانی کے لیے ہی ہوگی ـ عالمی اداروں کی شائع کردہ رپورٹز کے مطابق ۲۰۲۵ تک پاکستان میں سےپانی غائب ہو چکا ہو گااور اگر جلد از جلد مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو اس مسلے پر قابو پانا شائد ناممکن بھی ہو جائے۔
پاکستان کو ڈیمز کی ضرورت ہے، پاکستان کی ضرورت کے تحت جتنے ڈیمز بنائے جائیں کم ہیں کالا باغ ڈیم اگرچہ اس کی تعمیر پر 126 ارب روپے کا تخمینہ بیان کیا گیا لیکن ایک اس کے بننے سے عوام پاکستان کو حاصل ہونے والے فوائد بھی بے کثیر ہیں ـ پاکستان بجلی کی قلت سے محفوظ ہوجائے گا، صنعتی کام زور و شور سے جاری رہے گا، آبپاشی کے لیے پانی کی قلت نہیں ہوگی ، تمام صوبوں کو وافر مقدار میں پانی میسر ہوگا سب سے بڑی بات عوام ِ پاکستان کو پینے کے لیے صاف پانی دستیاب ہوتا ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد حاصل ہوتے جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں علاوہ ازیں ایک اندازے کے مطابق اس سے حاصل ہونے والی آمدن 33 ارب سے زائد ہوتی ـ مگر اس سب کے باوجود کالا باغ ڈیم کو اختلافی نشان بنا کر متنازعہ کردیا گیا ـ چلیں مان لیا جائے کہ کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا وجوہات اس کے پس پردہ کچھ بھی ہوں ـ مگر مہمند اور بھاشانی ڈیم تو بن سکتے ہیں نہ جس کے لیے آرڈر بھی ہیں، عطیات کی درخواست بھی ہیں ـ مگر وہ تمام سیاسی بھیڑیں جن کے دعوے تو یہ ہیں کہ الیکشن جیت کر ہمارے لیے کام کریں گی مگر اس سے پہلے ان کے پاس پانی کی مد میں ایک روپیہ نہیں ہےـ اور اگر اس تناظر میں عوام کا شکوہ یہ ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ہم عطیات کیوں دیں تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے بہر حال قابل افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی پانی کا مسئلہ نہ ہوتا نہ ہو اگر منظم طریقے سے تحفظ ِ آب کے لیے کام کیا جاتا ـ پاکستان میں ہر نعمت قدرتی طور پر موجود ہے ـ ہمالیہ کے پہاڑوں کا ایک بڑاحصہ شامل ہے جو گلیشیرز پر مبنی پہاڑ ہیں جن سے نکلنے والے پانی کو اگر استعمال میں لایا جائے تو اس مسلئے سے با آسانی نمٹا جا سکتا ہے پر پاکستان میں پانی کو محفوظ رکھنے والے صرف ۳ بڑے پانی کے بیسن موجود ہیں پاکستان ہر سال ۷۰ارب ڈالر کی مالیت کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس پانی کو کہیں محفوظ رکھنے کا منظم انتظام موجود نہیں ہے ـ
ابھی بھی وقت ہے کہ پاکستان کو ترقی کی جانب لے کر جانے میں اقدامات کرنے چاہیے ـ حکومت پاکستان کو ایک بہتر منظم اور با صلاحیت ٹیم پر مشتمل واٹر پالیسی مرتب کرنی چاہیے جو ان امور و فکر کرکے عملی اقدامات بجا لائیں کہ پانی کب کیسے اور کن کن طریقہ کار کے ذریعے محفوظ کیا جاسکتا ہے ـ یاد رکھیں پانی زندگی ہے ـ ہم سب کے لیے اس میں امیر غریب، حکومت و عوام کی تخصیص نہیں اس لیے حکومت کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے کہ پانی کی حفاظت کریں ـ اور بلاوجہ ضیاع کرنے سے پرہیز کریں ـ اور سلسلے میں اپنا اپنا کردار ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں ـ پانی نہیں تو کچھ نہیں، اگر پانی نہیں تو سبزہ نہیں، زندگی نہیں ، بلکہ صرف اور صرف قبریں اور اموات باقی رہ جائیں گی ـ
در صدف ایمان (کراچی)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں