خود کلامی (کشمیر)
سرسبز پہاڑوں پر چمکتی، اجلی، روشن دھوپ بکھری پڑی تھی، پہاڑوں کی شادابی کو دھوپ کا اجلاپن شاید گد گدا رہا تھا، جب ہی وہ اپنے سبز پیراہن پر سنہرے رنگ کے گرنے سے مزید اٹھلائے جارہی تھی، سبز شاداب رنگت کے اوپر آسمان پر سفید و آسمانی رنگ کا سنگم تھا، اور کالے پروں والے پرندے اس آسمان کی خوبصورتی مزید بڑھارہے تھے، پھر اسی آسمان پر چمکتا سرخ نشان حد نظر تک کی شادابی کو سنہرا کر رہا تھا. پہاڑوں سے نکلتی، بل کھاتی شفاف، نکھری سفیدی سے ملاپ کیے ہنس کی چال چلتا پانی کا دھارا اپنے ہونے پر نازاں تھا، ماحول پر خواب ناک خوبصورتی طاری تھی، دیکھنے والی آنکھ دیکھتی تو اس منظر کو آنکھوں میں قید کرنے کے جتن کرتی... کس قدر خوبصورت منظر تھا.... ہر چیز پرسکون نشان ِ امن بن کر مکمل تھی کامل تھی...... مگر یہ کیا یہ کیسی آوازیں ہیں جو اس ماحول کے سکون کو چیرتی چلی گئی فضاء میں دھواں اٹھ رہا تھا، بارود کی خوف ناک بو پھیل رہی تھی ، کچھ کلیوں کے رونے بلکنے کی آوازیں بلند ہوتی جارہی تھیںں شاید کچھ عورتیں بھی ہیں، جن کے بین بلند ہوتے جارہے ہیں.... سورج جیسے ایک دم سمٹ گیا سیاہی و سرخی ماحول پر طاری ہوگئ وہ خوبصورتی پر نازاں پہاڑ جو فخر سے سر اٹھائے تھے پاکستان کی طرف ایک نظرِ تاسف ڈال کر سرجھکاگئے.....
کشمیر کی شہزادیاں دیو سے آزاد اب بھی نہیں تھی..... خوبصورتی قید تھی..... اور شاید شرمندہ بھی.......
از #دُرِّ_صــدفـــ_ایــمــان
#Kashmir
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں