آؤ زندگیاں برباد کریں



سنو رمشاء اس لڑکی کی ویڈیو دیکھی جو کالج میں دوستوں کو  ڈانس کرکے دکھارہی تھی اور دوستوں میں سے ہی کسی نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی،  اور وہ بے جاری  اپنی ہر ویڈیو کے اپلوڈ ہونے پر کمنٹس کر کے منت سماجت کر رہی تھی کہ اسے ڈیلیٹ کردے. مجھے بہت افسوس ہوا بےچاری  نہ جانے کیسے سب کو فیس کر رہی ہوگی. ہاں ہے تو قابل افسوس بات پر اسے ضرورت ہی کیا تھی کالج میں یہ سب کرنے کی آج کل کسی کا اعتبار نہیں پھر اس نے کیا بھی  تو وڈیو نہیں بنانے دینا تھی نہ رمشاء نے جواب دیا.
مگر بات اتنی سی نہیں ہے، بات بہت بڑی ہے اس قدر طویل کہ اس وڈیو بنانے اور وائرل کرنے جیسی شے  کے زریعے لاکھوں زندگیاں اب تک تباہ و برباد ہوچکی ہیں اور لاکھوں زندگیاں تباہ ہوسکتی ہیں. پھر چاہے وہ ویڈیو مذاق میں بنائی جائے دوستی میں یا دشمنی میں.
دن میں ہم سیکڑوں وڈیوز دیکھتے ہیں بالکل عام حالات میں چلتے پھرتے کسی کی چوری کی، کسی مجبوری کی، کسی کی پریشانی کی، کسی کی چالاکی کی، کسی کی ہیرا پھیری، کسی کی مظلومیت کی، کسی کی گالیوں کی، کسی کے لڑائی جھگڑے کی، آپ کے لیے وہ چند منٹ کا کلپ ہوتا ہوگا، بنانے والے کے لیے اپنے پیج و چینل کے لیے ویوز بڑھانے کا ذریعہ ہوتا ہوگا لیکن جس ذات کے لمحات کو کیمرے میں قید کیا گیا اس کے لیے وہ زمانے کے سرد و گرم، نرمی و سختی کا فیصلہ ہوتا ہے.
زیادہ نہیں کچھ عرصہ قبل ہی ایک بوڑھی خاتون حکومت کو شاندار القابات سے نواز رہی تھی لوگو نے ہنستے مسکراتے اس وڈیو کو وائرل کرنے کی حد کردی، یہاں تک کہ ان خاتون کے بیٹے کو  اخبار میں اشتہار دے کر منع کرنا پڑا اپنی موجودہ حالت بیان کرنی پڑی کے خاندان کے لوگوں نے ان کا بائیکاٹ کردیا بہنوں کے رشتے آنا بند ہوگئے کہ ماں ایسی ہے تو بیٹیاں کیسی ہوں گی.
ایسے ہی رمضان المبارک کے مبارک ماہ میں جب مہنگائی آسماں کی وسعتوں کو چھو رہی ہوتی ہے کتنی ہی خواتین کے چوری کرتے ہوئے ویڈیو بنائی گئی وائرل کی گئی اگر چہ میں چوری کی تائید نہیں کر رہی مگر اس ضمن میں یہ ضرور کہوں گی شاید ممتا سے مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا ہو. اگر چوری کی بھی تو اس کی سزا اسے قانون دے. آپ کیوں اس کا چہرہ عام کرکے اس کے لیے پوری زندگی مشکل بنارہے ہیں.
افسوس کا بالا مقام کہ ان مظلوم لڑکیوں، بچیوں کی ویڈیو تک لعنت بھیج کر شئیر کی جاتی ہیں جن میں وہ بے بسی کا منظر ِ درد ناک پیش کر رہی ہوتی ہیں حالت برہنگی میں لاچاری و بے بسی کی حالت میں ہوش و خرد سے بے نیاز ہوتی ہیں . اس وقت بھی ہماری بے حسی کی انتہا ہوتی ہے جس کثرت سے وہ شئیر کی جاتی ہیں پھر اس پر توبہ استغفار کی جاتی ہے، عافیت کی دعا کی جاتی ہے. معذرت کے ساتھ یہ بھی سر سے چادر چھیننا ہی ہوتا ہے،  جو اس ویڈیو بنانے سے لے کر شئیر کرنے تک کی کاروائی ہوتی ہے. ظلم و بے حسی   کے ہی درجات میں سے کوئی درجہ ہوتا ہے یہاں تک کہ صرف لڑکیوں ہی نہیں لڑکوں کے ساٹھ ہوئے ظلم و ستم کی داستان ان کی خون میں لت پت لاشیں، بہتا خون بے جان وجود جب اس خاندان کو جس کا وہ  چشم و چراغ، آنکھوں کا تارا  تھا.  دن میں کئی بار نظر آتا ہوگا وہ بھی بے  رحم تبصروں کے ساتھ تو وہ  دن میں کئی بار مرتے ہوں گے. تڑپتے ہوں گے . صبر آتے آتے بھی شاید اپنا ضبط کئی کئی بار کھوتا ہوگا. صرف یہ ہی نہیں اس طرح کے سینکڑوں مناظر کیمرے میں قید کیے جاتے ہیں، جس میں لڑائی جھگڑے، گالم گلوچ، نجی معاملات،، چوری کرتے ہوئے، چوری کرتی خواتین کو مارتے پیٹتے دکھاتے ہوئے،   عیب دکھاتے ہوئے، ان معاملات کی چھپ کر ویڈیو بناتے ہوئے جو انسان اپنا عیب سمجھتے ہوئے دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ بسا اوقات تو حد ہوجاتی جب صرف ڈھونڈ کر ہی کسی ایسے معاملے  کو قید ِ چشم ِ کیمرہ کیا جاتا ہے کہ کسی انسان سے دشمنی و کینہ پروری یا دل میں رکھے بغض کو ہوا دی جائے  اسے پریشان کیا جائے، دشمنی نکالی جائے. بلیک میل کیا جائے. کیا یہ انسانی رویہ ہے؟ انسانیت ہے؟ کیا یہ درست ہے؟؟؟ 
 متعدد احادیث  عیب پوشی کرنے کی بابت   کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ رضی اللہ عنہ آپؐ ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں: ’’ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپائے گا، اسے ذلت و رسوائی سے بچائے گا تو اﷲ کریم روزِ قیامت اس کے گناہوں کو چُھپائے گا‘‘
اس لیے کوشش کریں یہ باتیں جو آپ کے نزدیک معمولی ہیں لیکن در حقیقت بہت چبھن و درد لیے جان لیوا ہیں ان سے حتی الامکان گریز کرنے کی کوشش کریں. اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں
یاد رکھیں میں بات مظلوم کی کر رہی ہوں ظالم کی نہیں، ایک عام انسان کی کر رہی ہوں عادی مجرم کی  نہیں.

از قلم. در صدف ایمان
𝓓𝓾𝓻-𝓡𝓮-𝓢𝓪𝓭𝓪𝓯 𝓔𝓮𝓶𝓪𝓪𝓷

28.11.2018

تبصرے

مشہور اشاعتیں