فضائے بدر پیدا کر

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا 
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

17 رمضان المبارک اہل اسلام کے لئے ہر سال ایک پیغام لے کر آتا ہے، اس دن کو وہ عظیم معرکہ رونما ہوا جس نے ظلم و ستم کی چکی میں پسے بے بس مسلمانوں کے قلب و روح کو فرحت بخشی۔ 17 رمضان معرکہ بدر یا غزوہ بدر کے حوالے سے معروف ہے۔ بدر کے میدان میں کفر و شرک کو منہ کی کھانی پڑی

۔مشرکین ایک ہزار کا طاقتور لشکر لے کر میدان میں تھا جس کے پاس مکمل اسلحہ اور مادی وسائل تھے ساتھ ہی مختلف قبائل کا اتحاد بھی تھا جبکہ مخالف سمت اہل ایمان صرف 313 نفوس پر مشتمل تھے، لشکر کی حالت تھی کہ بے سروسامانی کا عالم تھا۔ فاشہ کشوں کے لشکر کے پاس سامان حرب و ضرب کی شدید قلت تھی، پورے لشکر اسلام میں صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے، لیکن ایک ایسا ہتھیار اہل ایمان کے پاس تھا جس کا مقابلہ کبھی اور کسی طور ممکن نہ تھا ۔جی ہاں… وہ ہتھیار ایمان کی طاقت تھی اور سینوں میں سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ تھا۔
جنگ شروع ہونے سے قبل مشرکین مکہ تکبر اور غرور کے نشے میں اس قدر چور تھے کہ اپنے ساتھ ناچ گانے والیاں بھی لائے تھے، تاکہ بوقت فتح جشن کا خوب ساماں برپا کیا جائے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے سپریم کمانڈر حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عاجزی کے پیکر بنے انتہائی خشوع و خضوع سے رب کے حضور دست دعا پھیلائے ہوئے ہیں۔ اپنے مالک سے نصرت اور تائید کی التجائیں کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام بھی آپ کے ساتھ ہیں یہی سلسلہ جاری رہتا ہے کہ آپ کے کندھے سے چادر گر جاتی ہے تو اس پر یارغار سیدنا ابو بکر صدیق پکار اٹھتے ہیں بس کیجئے اللہ آپ کی دعائیں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

کفار  کا خیال تھا کہ ایک ہی ہلے میں اس نوزائیدہ ریاست کی عمارت زمین بوس ہو جائے گی اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا مگر نتائج زمینی حقائق کے برعکس نکلے جب جنگ اپنے انجام کو پہنچی تو کفر کا غرور بدر کی خاک میں مل چکا تھا، کفار کے بڑے بڑے جری بہادر درخت کے تنوں کی طرح کٹے ہوئے زمین پر پڑے تھے، مشرکین کو 70 لاشے اٹھانے پڑے، ہلاک ہونے والوں میں مکہ کے نامی گرامی سردار اور بااثر افراد تھے ان میں سرفہرست ابو جہل تھا جو دو نوجوان صحابہ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔

غزوئہ تبوک بھی اس کی واضح مثال ہے کہ جب رومیوں کے لاکھوں لشکر کے مقابلے میں تیس ہزار مسلمان تھے، دیکھا جائے یہاں بھی بدر کی طرح دونوں لشکروں کا واضح فرق تھا لیکن جب مسلمانوں نے اللہ پر توکل کیا، جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر اپنی دنیاوی مال و متاع کھیتی باڑی اور فصلوں کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا اور دین پر جان لٹانے کا عزم کیا تو اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور وقت کی سپر پاور ”روم” کو مقابلے پر آنے کی ہمت نہ ہوتی، مسلمانوں کا لشکر مدینہ سے نکل کر تبوک کے میدان میں خیمہ زن ہو گیا اور دشمن کا انتظار کرتا رہا لیکن اس نے وقت کی سپر پاور پر ایسا ر عب بٹھایا کہ صلیبی لشکر کو مقابلے میں آنے کی جرأت نہ ہوئی

ماضی قریب میں ہی ایک سپر پاور سوویت یونین نے مجاہدین کے ہاتھوں منہ کی کھائی۔ طاقت کا توازن کسی طور بھی نہیں بنتا تھا مگر اہل ایمان نے دستیاب قلیل وسائل سے اللہ پر توکل کرتے ہوئے میدانوں کو اپنا خون دے کر سجایا تو نہ صرف سوویت یونین افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا بلکہ اپنے وجود کو بھی برقرار نہ رکھ سکا اور کئی ملکوں نے آزادی حاصل کر لی جن پر وہ غاصبانہ قابض تھا۔ رو س کے بعد اکلوتی سپر پاور نے اپنے تمام اتحادیوں کو ساتھ ملا کر پھر افغانستان کا رخ کیا اور ”صلیبی جنگ” کا نعرہ لگایا، مجاہدین نے عشرے سے زائد وقت پر محیط جنگ کو جاری رکھا، اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور اب وہ جانے سے پہلے ان ہی لوگوں کے ساتھ مذاکرات اور انہیں اقتدار دینے کی باتیں کر رہا ہے، اپنے ہزاروں فوجی مروا کر اور کھربوں کا نقصان کروا کر شکست کا داغ لے کر افغانستان سے نکل رہا ہے جبکہ مجاہدین ان کہساروں پر اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے اب بھی موجود ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج بھی اگر ہم بدر کی طرح ایمان اور توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے کھڑے ہو جائیں تو بقول علامہ اقبال ملائکہ نصرت و تائید کے لئے آسمانوں سے اتر سکتے ہیں۔

ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، جب انگریز اس پر قابض ہوئے۔ اسپین پورے یورپ میں تہذیب کا سرچشمہ تھا جب ازابیلا اور فرڈیننڈ نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ وہ کون سی قوت تھی جو فاقہ کش بدر کے صحابہ اور عمر ابن خطاب کے مفلوک الحال سپاہیوں کو فتح نصیب کرتی تھی۔ وہ اللہ پر توکل اور اِس کی نصرت پر بھروسہ تھا۔ جنید بغدادی سے کسی سے سوال کیا۔ تصوف کیا ہے۔ فرمایا توکّل ہی تصوف ہے۔
جب بغداد، اسپین اور ہندوستان برباد ہوئے تو مسلمانوں سے یہ توکّل ختم ہو چکا تھا۔ ان کا بھروسہ اسبابِ دنیا پر تھا۔ ایسی قوم کو ہزار نیک لوگوں کی دعائیں بھی تباہی سے نہیں بچا سکتیں۔ اللہ اسی قوم کا بازو پکڑتا ہے جو صرف اور صرف اس پر توکل کرتی ہے۔ ہاں اور اسے بھروسہ ہوتا ہے

جب ہی تو کہتے ظفر اللہ خان

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا 
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

تبصرے

مشہور اشاعتیں